Waqar Khoya Bharam Gaya Aitbaar Toota
غزل
وقار کھویا بھرم گیا اعتبار ٹوٹا
گنوایا سب کچھ مگر نہ دل کا خمار ٹوٹا
میں ایک منظر سجانے کو پھر سے مضطرب ہوں
وہ ایک منظر جو آنکھ میں بار بار ٹوٹا
تری محبت کا پھر سے جا کے حصار کھینچا
تو پھر کہیں تازہ الفتوں کا حصار ٹوٹا
حیات کے کاروبار کی اُلجھنیں سلامت
انہی کے باعث یہ ہجر کا انحصار ٹوٹا
ترا کرم تھا سفر میں تھے برگ ریز موسم
مگر مرا حوصلا نہ پروردگار ٹوٹا
تقی جدائی کے بعد وہ بھی اُداس ہوگا
اسے ملے تو یہ مان بھی میرے یار ٹوٹا
سید تقی حیدر تقی
Syed Taqi Haider Taqi