ولیوں کے مزاروں پہ خدا بانٹ رہا ہے
حیران ہے کیوں دنیا کہ کیا بانٹ رہا ہے
ہوں غوث، ہوں داتا، مرے چشتی کہ مرے پیر
ان ہاتھوں سے وہ ہاتھ دوا بانٹ رہا ہے
درباروں مزاروں پہ کرم عرش بریں کا
اور زیر زمیں اسکا گدا بانٹ رہا ہے
سرکار کا دربار ہے جو چاہے یہاں مانگ
اس در پہ وہ رحمت کی ردا بانٹ رہا ہے
بن مانگے ملے لاکھ جو مانگو تو کئی لاکھ
بندوں میں عقیدت کا صلہ بانٹ رہا ہے
وہ رب ہے جو ولیوں کے ٹھکانوں سے حقیقی
جینے کی یہاں سب میں ادا بانٹ رہا ہے
دو دھار کی تلوار ہے یہ شرک خبردار
عابد یہ رہے یاد خدا بانٹ رہا ہے
عابد رشید