غزل
وہاں اب صبح تُو نے آکے پھیلایا سویرا
جہاں چھایا ہوا تھا بس اندھیرا ہی اندھیرا
فلک تکتے ہوئے تارے نظر میں آئے ایسے
کیا میں نے ستاروں پر بہت دن تک بسیرا
سیاہی دُور کرنے کی جو ہمت کی ہے میں نے
مرے اس حوصلے سے چارسُو پھیلا اُجالا
ہوئی خوابوں کی ہے تکمیل ایسی عمدہ ، اعلیٰ
تو مجھ کو کامیابی نے مکمل طور گھیرا
دیا قسمت نے میرا ساتھ دنیا میں بجا ہے
مگر محنت سے میں نے ہے نصیبے کو سنوارا
جہاں میں مل گیا ہمت کا یہ انعام ایسا
رہا کوئی نہ میرا خواب آدھا یا اَدھورا
خوش و خرم ثمرؔ کو رکھ ہمیشہ زندگی میں
ہمیشہ زیست میں ، تو کامرانی دے خدایا
ثمرین ندیم ثمر