وہاں بھی زہر زباں کام کر گیا ہوگا
کہ آدمی تھا وہ باتوں سے ڈر گیا ہوگا
تھی میں بھی اس پہ ہنسی مل کے اس جہاں کے ساتھ
یہ سن کے شرم سے شاید وہ مر گیا ہوگا
ہزار بار سنا پھر بھی دل نہیں مانا
کہ میرے پیار سے دل اس کا بھر گیا ہوگا
نئے مکین ہیں اب واں اسے خبر کب تھی
بڑے خلوص سے وہ میرے گھر گیا ہوگا
کوئی دریچہ کھلا رہ گیا تھا آندھی میں
مرا وجود یقیناً بکھر گیا ہوگا
وہ جانتا تو ہے محفل کے بھی سبھی آداب
جو دیکھ کر نہیں اٹھا تو ڈر گیا ہوگا
نہ ہو جو سطح پہ ہلچل تو اس سے یہ نہ سمجھ
چڑھا ہوا تھا جو دریا اتر گیا ہوگا
شبنم شکیل