وہی روایت گزیدہ دانش وہی حکایت کتاب والی
رہی ہیں بس زیر درس تیرے کتابیں پچھلے نصاب والی
میں اپنے لفظوں کو اپنے فن کے لہو سے سرسبز کرنے والا
مرا شعور اجتہاد والا مری نظر احتساب والی
چلو ذرا دوستوں سے مل لیں کسے خبر اس کی پھر کب آئے
یہ صبح گلگوں خیال والی یہ مشکبو شام خواب والی
مثال مجھ گم شدہ نفس کی ہے ایسی ہی جیسے کوئی بچہ
پرانے بستے میں رکھ کے پھر بھول جائے کاپی حساب والی
مرے لیے تو ترا علاقہ ہے شہر ممنوعہ جیسا لیکن
کھنڈر کھنڈر زندگی کو میں نے گلی دکھا دی گلاب والی
مرے یہ افکار تیرے فکر و نظر کی تطہیر ہیں مری جاں
میں حکمتیں تجھ کو دے رہا ہوں وہی خدا کی کتاب والی
فضاؔ کہ درویش حرف ہے دیکھنا ذرا اس کا بانکپن تم
قمیص خورشید بخت والی کلاہ گردوں رکاب والی
فضا ابنِ فیضی