وہ آفتاب ہوں جو خود ہی دن نکالتا ہے
تُو میری رات چراغوں سے کیوں اجالتا ہے
اسیر ِ شام و سحر میں رہوں وہ چاہتا ہے
تبھی تو وقت مجھے روز و شَب میں ٹالتا ہے
وہی مجھے بھی وسیلے حیات کے دے گا
جو پتھروں میں چھپی زندگی کو پالتا ہے
جسے ہوا کے مخالف اُڑان بھرنی ہو
وہ پنچھی اُڑتے ہوئے پَر کہاں سنبھالتا ہے
کہ دور دور تلک کَف سے بھر گیا ساحل
یہ چاند ایسے سمندر کو کیوں اچھالتا ہے
تم اپنی پیار کہانی کو عام مت کرنا
زمانہ ایسے فسانے بہت اچھالتا ہے
یہ پیڑ ہیں جو بچاتے ہیں دھوپ سے ورنہ
کسی پہ کون یہاں اپنا سایا ڈالتا ہے
وہ وقت آنے پہ اپنا حساب کر لے گا
کسی کو کون یہاں بے سبب سنبھالتا ہے
حرارتوں کی بھی جیبوں میں کچھ نہیں راجا !
گُلوں کا زَر یوں صبا سے کوئی نکالتا ہے؟
احمدرضاراجا