غزل
وہ خواب یا خیال ہے میں جان لوں تو کچھ کہوں
جو رنج ماہ و سال ہے میں جان لوں تو کچھ کہوں
ابھی مجھے خبر نہیں میں کس لئے اداس ہوں
جو حزن ہے ملال ہے میں جان لوں تو کچھ کہوں
غبار آرزو چھٹے تو پھر کوئی خبر ملے
یہ ہجر ہے وصال ہے میں جان لوں تو کچھ کہوں
فقیہ شہر ایک جام پی کے دیکھ لوں ذرا
حرام یا حلال ہے میں جان لوں تو کچھ کہوں
کئی دنوں سے ایک شعر بھی نہیں کہا گیا
عروج یا زوال ہے میں جان لوں تو کچھ کہوں
گو زخم سل گئے مگر کسک تو اور بڑھ گئی
یہ کیسا اندمال ہے میں جان لوں تو کچھ کہوں
کلی چٹکنے دیجئے ابھی نہ مجھ سے پوچھئے
یہ زرد ہے کہ لال ہے میں جان لوں تو کچھ کہوں
ردیف اور قافیے نبھا دئے گئے مگر
غزل بھی لا زوال ہے میں جان لوں تو کچھ کہوں
ابھی تو میرے پاس تھا ابھی یہ دل کدھر گیا
یہ زلف ہے کہ جال ہے میں جان لوں تو کچھ کہوں
ہمارے ساتھ یار لوگ پھر سے ہاتھ کر گئے
یا اب کے تیری چال ہے میں جان لوں تو کچھ کہوں
افتخار شاہد ابو سعد