وہ دفعتاََ کہیں سے سرِ شام آ گیا
پُونم کا چاند جیسے لبِ بام آگیا
اُترے خلا نورد جو نہی ماہ تاب پر
تسخیرِ کاٸنات کا پیغام آ گیا
چاہا تھا ایک جُرعہءِ مے دستیاب ہو
ساقی اُٹھا کے ہاتھ میں دو جام آگیا
رسواٸی کا سبب تو کوٸی اور لوگ تھے
ھم پر تو خواہ مخواہ کا الزام آ گیا
غیروں کو اعتراض تھا محفل میں مَیں نہ ہوں
دیکھی جو فال قر عہ اُن کے نام آ گیا
ترکش اُٹھا کے پھر تے ہو صیاد کس لیے
لو صید اپنے آپ تہءِ دام آ گیا
کاشف ترا نصیب تری دستگاہ میں
وہ ایک شخص صاحبِ اِکرام آ گیا
صادق کاشف بوزدار