وہ دُھن میں تھا کہ اُسے آفتاب ہونا تھا
ہماری نیند کا خانہ خراب ہونا تھا
زمیں پہ آتے ہی غربت نے آ لیا مجھ کو
وگرنہ میں نے یہاں کا نواب ہونا تھا
تجھے ہی شوق تھا کھڑکی میں بیٹھ رہنے کا
مرے دیے نے ابھی ماہتاب ہونا تھا
کسی اُداس نے ہنسنے کا اہتمام کیا
کسی گناہ نے جیسے ثواب ہونا تھا
اب اُس کا پاؤں ہی ایسا ہے کیا کہا جائے
اگر یہ پاؤں نہ ہوتا ، گلاب ہونا تھا
ارشاد نیازی