غزل
وہ سلیقہ ہمیں جینے کا سکھا دے ساقی
جو غم دہر سے بیگانہ بنا دے ساقی
جام و مینا مری نظروں سے ہٹا دے ساقی
یہ جو آنکھوں میں چھلکتی ہے پلا دے ساقی
شعلۂ عشق سے چھلکا دے مرے شیشے کو
اور بیتاب کو بیتاب بنا دے ساقی
حرم و دیر میں بٹ جاتے ہیں رندان وفا
حرم و دیر کی تفریق مٹا دے ساقی
سن رہا ہوں کہ میسر ہی نہیں دنیا میں
اک نگہ راز دو عالم جو بتا دے ساقی
خشک ہے موسم احساس فضا پیاسی ہے
خم کے خم سینۂ گیتی پہ لنڈھا دے ساقی
پھر کبھی ہوش نہ آئے تو کوئی بات نہیں
آج ہم جتنی پئیں اتنی پلا دے ساقی
جوش مستی میں بغل گیر ہوں بچھڑے ہوئے دل
آج انسان کو انسان بنا دے ساقی
زندگی خواب مسلسل کے سوا کچھ نہ سہی
اس کی تعبیر تو درشنؔ کو بتا دے ساقی
درشن سنگھ