وہ شاخ گل کہ جو آواز عندلیب بھی تھی
ہوئی جو خشک تو میرے لیے صلیب بھی تھی
دیار سنگ میں سر پھوڑتی پھری برسوں
مری صدا کہ جو اس دور کی نقیب بھی تھی
جو شمع دور تھی اس نے فقط دھواں ہی دیا
اسی کی لو سے جلا ہوں جو کچھ قریب بھی تھی
سرشت حسن عجب ہے کہ وصل کے ہنگام
نگاہ یار میں کیفیت رقیب بھی تھی
سکوں کہاں کہ میں آشوب فکر رکھتا ہوں
جو مہر تھا تو تمازت مرا نصیب بھی تھی
رضی اختر شوق