غزل
وہ صرف قصے کہانیوں کے معاملے تھے چراغ رکھ دے
چراغ گھسنے سے کوئی جن ون نہیں نکلتے چراغ رکھ دے
ہماری معصومیت تو دیکھو رکھ آئے دل ہم حضور جاناں
کہ جیسے کوئی خدا کا بندہ ہوا کے آگے چراغ رکھ دے
کسی کے سائے کو قید کرنے کا اک طریقہ بتا رہا ہوں
اک اس کے آگے چراغ رکھ دے اک اس کے پیچھے چراغ رکھ دے
تجھے بہت شوق تھا محبت کی گرم لپٹوں سے کھیلنے کا
لے جل گئی نہ ہتھیلی اب خوش کہا تھا میں نے چراغ رکھ دے
چراغ لے کے بھی ڈھونڈنے سے چراغ جیسا نہیں ملے گا
سو رکھنی ہے تو چراغ سے رکھ نہیں تو پیارے چراغ رکھ دے
چراغ روشن ضرور کر تو پر اس سے پہلے خدا کی خاطر
یہاں پہ پھیلا ہے جو اندھیرا سمیٹ زیر چراغ رکھ دے
میں دل کی باتوں میں آ گیا اور اٹھا کے لے آیا اس کی پائل
دماغ دیتا رہا صدائیں چراغ رکھ دے چراغ رکھ دے
چراغ شرما