وہ مان رکھتے ہیں اُن کا جو اُن کو جان گئے
ملا گمان سے بڑھ کر جو خوش گمان گئے
صدا لگانے سے پہلے ہی کھل گیا جو در
یہیں سے بھیک ملے گی فقیر مان گئے
تھا داغ داغ یہ دامن اسے کہاں دھوتا
کرم کے چھینٹے پڑے اور سبھی نشان گئے
ہو سامنے مرے روضہ ہو جالیوں پہ نظر
اٹھوں جہان سے یوں تو کہوں کہ مان گئے
تھی بےکلی سی طبیعت میں بےقرار تھا دل
دھیان انکا جو آیا تو سب دھیان گئے
مرے رفیق ہیں ہر دم درود کے بادل
جہاں بھی دھوپ گئی بن کے سائبان گئے
درود پڑھتے ہوئے دل سنبھالے ہم عابد
لرزتے کانپتے طیبا کو بے زبان گئے
عابد رشید