غزل
وہ نظر بد گماں سی لگتی ہے
زندگی رائیگاں سی لگتی ہے
بے یقینی سی بے یقینی ہے
ہر حقیقت گماں سی لگتی ہے
لب کو زحمت ہنسی کی کیا دیجے
جب ہنسی بھی فغاں سی لگتی ہے
شہر دل میں ہے کیسا سناٹا
خامشی بھی بیاں سی لگتی ہے
خوگر تیرگی ہوں جب آنکھیں
روشنی بھی دھواں سی لگتی ہے
کیسے گزرے گی زندگی ہاتفؔ
ہر گھڑی امتحاں سی لگتی ہے
ہاتف عارفی فتح پوری