wo Parsaai kay charchoo kay abr chatnay lagay
غزل
وہ پارسائی کے چرچوں کے ابر چھٹنے لگے
ہوا چلی تو بدن سے لباس ہٹنے لگے
کمال یہ کہ کسی سمت بھی ملال نہ تھا
وہ جوشِ ربط گیا رابطے بھی گھٹنے لگے
یہ دھوپ کون سی آنکھوں سے آج تکنے لگی
کہ ستر پوش گلوں کے لباس پھٹنے لگے
ہمارے ہونے میں اک راز ہے یہی پِنہاں
بَدیر ہی سہی ، اپنی طرف پلٹنے لگے
سماعتوں میں کسی نے وہ شورِ حشر بھرا
ہم اپنے آپ میں رہتے ہوئے سمٹنے لگے
خیال چاک پہ رکھنے سزا ہوئے صابر
پہ سوچ سوچ کے سارے خیال کٹنے لگے
صابر چودھری
Sabir Choudhry