loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

18/06/2025 03:01

وہ چشمِ زر کہاں، یہ مِری چشمِ تَر کہاں​

وہ چشمِ زر کہاں، یہ مِری چشمِ تَر کہاں
ٹکرائی بھی تو جا کے نظر سے نظر کہاں

جانا ہے تم کو جاؤ، چلے ہو مگر کہاں
میں ڈُھونڈتا پھروں گا تمہیں دَر بہ دَر کہاں

قصرشہی کی بات ہے قصر شہی کے ساتھ
تیری گلی کہاں ، تِرے دیوار و دَر کہاں

دولت سے خوابگاہ تو جو بھی خرید لو
نِیندیں مگر خرید سکے مال و زَر کہاں

تُو آگ ہی لگا کے ذرا خُود کو دیکھ لے
تجھ پر یوُنہی پڑے گی کِسی کی نظر کہاں

میں اپنا آپ ڈُھونڈ رہا ہوں جہان میں
مجھ کو عدیم اور کِسی کی خبر کہاں

یہ کِس مقابلے کے لیے جا رہے ہو تم
آنسو کہاں عدیم، صدف کا گہر کہاں

عدیم ہاشمی

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم