Tooti hay Qasam Tootay Kaee Baar bharam Tak
غزل
ٹوٹی ہے قسم ٹوٹے کئی بار بھرم تک
پھر پہنچا ہوں اے عشق ترے نقشِ قدم تک
برباد نہ ہو جائے کہیں خوابوں کا مسکن
رہنا ہے مجھے سینہ سپر آخری دم تک
ہوجائیں اگر باغی مقدر کی لکیریں
پھر اپنے کہاں رہتے ہیں گھر بار صنم تک
اس آس پہ چھوٹا نہیں امید کا دامن
میں میں سے چلی آئے گی خود سر کبھی ہم تک
یہ علم نہیں تھا کہ یہ ماں جائے ہی میرے
بازار میں رکھ دیں گے مری آنکھ کا نم تک
سوچوں کی رگیں نوچنا پڑتی ہیں مری جاں
آوازِ الم جاتی ہے پھر نوکِ قلم تک
وہ کیسی حقیقت ہے جو لانے میں ہے ناکام
اک چشمِ تماشائی میں وہ پیالہِ جم تک
یہ کس کے قدم دل کی حویلی میں پڑے ہیں
حیران پریشان ہے تلوارِ ستم تک
اے کاش مرے قدموں تلک آئے وہ رستہ
لے جائے جو دنیا سے مجھے باغِ ارم تک
اے موجِ شفق موجِ صبا موجِ نسیمی
آنے دو مکیں خواب کو اس دل کے حرم تک
نسیم شیخ
Naseem Shaikh