ٹھیک ھے، ٹھیک ھے، سرکار، نہیں بولیں گے
بیچ میں ، اب یہ گنہگار ، نہیں بولیں گے
اب عدو دوستو ! دہلیز تک آ پہنچا ھے
لے کے اب آنکھ میں ہم پیار نہیں بولیں گے
مرے حصے میں ھے کیوں اتنی حزیمت آئی ؟
اِس پہ کچھ صاحبِ دستار نہیں بولیں گے
اب تو غربت نے اٹھائی ہوئی تلواریں ہیں
اب ترے درہم و دینار نہیں بولیں گے
تب کہیں جا کے وہ محفل میں چلا آیا ھے
طے ہوا تھا کہ طرفدار نہیں بولیں گے
پھر تو بیکار گیا ھے ترا مرنا ، غزنی
اب اگر کوچہ و بازار نہیں بولیں گے
محمود غزنی