غزل
پا کر شمیم گیسوئے جاناں صبا سے آج
ملتا نہیں دماغ گلوں کو ہوا سے آج
عہدہ بر آ جو ہونا تھا عہد وفا سے آج
ہم کیا سبک سرا نہ ملے ہیں قضا سے آج
کہہ دے یہ کوئی شیوۂ حاجت روا سے آج
برگشتہ ہو کے بات نہ کرنا گدا سے آج
جب ہے عمل فضول دعا غیر مستجاب
تو ہاتھ اٹھائے لیتے ہیں ہم مدعا سے آج
اس طرح اس نے عذر تغافل میں آہ کی
پھر ہو گئی امید وفا بے وفا سے آج
یہ جوش ابتلا ہے کہ اہل سفینہ بھی
ناراض ناخدا سے ہیں نا خوش خدا سے آج
محمود سروش