پردہ داری کے عوض بدنام و رسوا کر دیا
اے خیال یار کیا کرنا تھا اور کیا کر دیا
خوب بیمار محبت کا مداوا کر دیا
مار ڈالا پھر بھی کہتے ہو کہ اچھا کر دیا
ان کو سکتہ ہو گیا کیسا اشارہ کر دیا
اے نگاہ یاس آخر تونے یہ کیا کر دیا
سینکڑوں کو راہ پر لائے کھوئے ہوئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا
اک تری چشم کرم نے ساقی بندہ نواز
ذرہ کو خورشید اور قطرہ کو دریا کر دیا
یہ کیا فرقت میں ان کی یاد نے آکر سلوک
بیٹھے بٹھائے جگر میں درد پیدا کر دیا
آنکھوں ہی آنکھوں میں بیدمؔ کہہ گئے ہم حال دل
پردے ہی پردے میں اظہار تمنا کر دیا
بیدم شاہ وارثی