loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

17/06/2025 19:57

پردے اٹھے ہوئے بھی ہیں ان کی ادھر نظر بھی ہے

پردے اٹھے ہوئے بھی ہیں ان کی ادھر نظر بھی ہے
بڑھ کے مقدر آزما سر بھی ہے سنگ در بھی ہے

جل گئی شاخ آشیاں مٹ گیا تیرا گلستاں
بلبل خانماں خراب اب کہیں تیرا گھر بھی ہے

اب نہ وہ شام شام ہے اپنی نہ وہ سحر سحر
ہونے کو یوں تو روز ہی شام بھی ہے سحر بھی ہے

چاہے جسے بنائیے اپنا نشانۂ نظر
زد پہ تمہارے تیر کے دل بھی ہے اور جگر بھی ہے

دن کو اسی سے روشنی شب کو اسی سے چاندنی
سچ تو یہ ہے کہ روئے یار شمس بھی ہے قمر بھی ہے

زلف بہ دوش بے نقاب گھر سے نکل کھڑے ہوئے
اب تو سمجھ گئے حضور نالوں میں کچھ اثر بھی ہے

بیدمؔ خستہ کا مزار آپ تو چل کے دیکھیے
شمع بنا ہے داغ دل بیکسیٔ نوحہ گر بھی ہے

بیدم شاہ وارثی

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم