غزل
پرندہ آئنے سے کیا لڑے گا
فریب ذات میں آ کر مرے گا
محبت بھی بڑی لمبی سڑک ہے
برہنہ پا کوئی کتنا چلے گا
ہمارے جاگنے تک دیکھنا تم
ہمارے خواب کا چرچا رہے گا
ہماری خاک سے دنیا بنی تھی
ہماری راکھ سے اب کیا بنے گا
یہ چنگاری بھڑک اٹھے گی اک دن
میاں یہ عشق ہے ہو کر رہے گا
تجھے دنیا کی عادت پڑ گئی ہے
اکیلا رہ گیا تو کیا کرے گا
میں تیرے ساتھ مر سکتا ہوں لیکن
تو میرے ساتھ کیا زندہ رہے گا
ابھی سے سوچ لو خانہ بدوشو
ہماری راہ میں صحرا پڑے گا
سمندر نے روانی سیکھ لی ہے
مرے دریا تمہارا کیا بنے گا
عمران عامی