غزل
پروانہ سوز شمع سے یوں باخبر نہ ہو
دل سے لگی نہ ہو تو زباں میں اثر نہ ہو
کاہے کو یوں بسی کبھی بستی خیال کی
دنیا اجڑ بھی جائے تو ہم کو خبر نہ ہو
اف اف بنی ہے ایک زمانے کی جان پر
اب دل جلوں کی آہ میں یا رب اثر نہ ہو
یا اٹھتی موج چلتی ہوا سے تھی برہمی
یا اب مجھے ملال کسی بات پر نہ ہو
آئینۂ جمال جہاں کو بہت نہ دیکھ
ڈرتا ہے دل کہیں تجھے اپنی نظر نہ ہو
نیرنگیٔ ملال بہت ناگوار ہے
دنیائے غم میں شام نہ ہو یا سحر نہ ہو
دنیا سے اٹھے دل کی کہانی بندھی رہی
یوں بھی کسی ملال زدہ کی بسر نہ ہو
ہر سو ہے اک ملال کی دنیا بسی ہوئی
روئے خیال آہ کدھر ہو کدھر نہ ہو
ہاں ہاں ہر ایک ذرہ ہے آئینۂ جمال
کیا دیکھے تجھ کو جس کی تری سی نظر نہ ہو
بیخود موہانی