*پروین شاکر کی نظم*
*”مشترکہ دُشمن کی بیٹی” پر*
*بین المتنی (Intertextual) تنقید*
تحریر: آصف علی آصف (آصف)
بین المتنی تنقید ایک ایسا تنقیدی طریقہ ہے جس میں کسی ادب کے متن کی دیگر متون سے روابط کو سمجھا اور جانچا جاتا ہے۔ اس تجزیے میں ہم پروین شاکر کی نظم "مشترکہ دُشمن کی بیٹی” کا گہرائی سے تجزیہ کریں گے اور اس میں مختلف متون کے حوالوں، ثقافتی، تاریخی، اور ادبی پس منظر کی تفتیش کریں گے۔
*۱۔ قومی شناخت اور ثقافت کا امتزاج*
"ننھے سے اک ریستوران کے اندر
میں اور میری نیشنلسٹ کولیگز
کیٹس کی نظموں جیسے دل آویز دھند لکے میں بیٹھی”
یہ ابتدائی مصرعہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نظم میں قومی شناخت، زبان اور ثقافتی تفصیلات کا ایک پیچیدہ امتزاج ہے۔ کیٹس کی نظموں کا ذکر ایک بین المتنی حوالہ ہے جو عالمی ادب میں رومانویت کی علامت ہے۔ کیٹس کی شاعری کا موضوع انسانی جذبات اور فطرت کے درمیان تعلق ہوتا ہے جو یہاں اس نظم میں نیشنلسٹ کولیگز کے جذبات کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ نظم میں کیٹس کے تخیل کو قومی و ثقافتی کشمکش کی طرف موڑا گیا ہے۔
*۲۔ ہندوستان و پاکستان کے درمیان تقسیم کا عکس*
"پاک و ہند سیاست تک آ نکلیں
پینسٹھ__اُس کے بعد اکہتّر__جنگی قیدی
امرتسر کا ٹی وی____
پاکستان کلچر__محاذِ نو__خطرے کی گھنٹی۔۔”
یہ اقتباس پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تقسیم اور جنگوں کی جھلک پیش کرتا ہے جو براہ راست پاکستانی اور ہندوستانی تاریخ کے سنگین لمحوں کی عکاسی ہے۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں کا تذکرہ ایک ثقافتی اور سیاسی پس منظر فراہم کرتا ہے۔ یہاں "جنگی قیدی” اور "پاکستان کلچر” جیسے اصطلاحات کا ذکر ماضی کی تلخ جدلیات کو واضح کرتا ہے۔ "امرتسر کا ٹی وی” ایک مخصوص تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں دونوں ممالک کا تصادم اور یادیں اب بھی زندہ ہیں۔ نظم میں ان واقعات کو آپس میں مربوط کر کے ایک پیچیدہ ثقافتی اور جذباتی منظرنامہ بنایا گیا ہے۔
*۳۔ قومی تعصبات اور نیشنلسٹ جذبات*
"میری نیشنلسٹ کولیگز
اس حملے پر بہت خفا تھیں
میں نے کُچھ کہنا چاہا تو
اُن کے منہ یوں بگڑ گئے تھے
جیسے سُوپ کے بدلے اُنھیں کونین کا رس پینے کو ملا ہو”
یہاں نیشنلسٹ جذبات اور ان کے اثرات کو نہایت دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ "کونین کا رس” ایک زہر کی طرح دکھائی دیتا ہے جو نیشنلسٹ کولیگز کے دماغ میں پھیل گیا ہے۔ یہ ایک بین المتنی حوالہ ہو سکتا ہے جو انگریزوں کی سامراجی حکمت عملیوں کی جانب اشارہ کرتا ہے جو لوگوں کے ذہنوں میں زہر کی طرح بیٹھ کر مختلف قوموں کے درمیان تناؤ پیدا کرتی ہیں۔ "سُوپ” اور "کونین کا رس” کا موازنہ نیشنلسٹ نظریات کی کشیدگی کو بڑھاتا ہے۔
*۴۔ ثقافت اور سیاست کا تصادم*
"ریستوران کے مالک کی ہنس مُکھ بیوی بھی
میری طرف شاکی نظروں سے دیکھ رہی تھی
(شاید سنہ باسٹھ کا کوئی تِیر ابھی تک اُس کے دل میں ترازو تھا!)”
یہاں "سنہ باسٹھ” (1962 کی جنگ) کا ذکر ایک اور تاریخی تناظر فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک اور بین المتنی حوالہ ہے جو ثقافت میں سیاست کے اثرات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ "تِیر” اور "ترازو” کے ذریعے تاریخ کی تلخ یادوں کو اجاگر کیا گیا ہے جو عام لوگوں کی زندگیوں میں اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ یادیں وہ زخم ہیں جو سامراجی حکمت عملیوں اور جنگی تنازعات کی وجہ سے دلوں میں بھر گئی ہیں۔ اس نقطہ نظر سے یہ اشعار نہ صرف سیاسی بلکہ جذباتی سطح پر بھی قومی تناؤ کی عکاسی کرتے ہیں۔
*۵۔ موسیقی اور سیاست کا امتزاج*
"لیکن اُس پل ، آرکسٹراخاموش ہُوا
اور لتا کی رس ٹپکاتی، شہد آگیں آواز ، کچھ ایسے اُبھری
جیسے حبس زدہ کمرے میں
دریا کے رُخ والی کھڑکی کھلنے لگی ہو!”
"لتا کی رس ٹپکاتی آواز” ایک معروف بین المتنی حوالہ ہے جس کا تعلق بھارتی ثقافت اور موسیقی سے ہے۔ لتا منگیشکر کی آواز نے ہندوستانی موسیقی کو عالمی سطح پر متعارف کرایا۔ یہاں لتا کی آواز کو ایک آزاد اور نرم روح کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو ایک طویل عرصے سے جکڑے ہوئے جذبات کو آزاد کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس سے ایک متنازعہ سیاسی صورتحال میں "گیت” اور "موسیقی” کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے جو لوگوں کے ذہنی و جذباتی تناؤ کو کم کر سکتی ہے۔ یہ محض ایک ثقافتی حوالہ نہیں بلکہ موسیقی کے ذریعے سیاست و ثقافت میں ہم آہنگی کی جستجو بھی ہے۔
*٦۔ ثقافت کی باہمی ہم آہنگی اور مزاحمت*
"میز کے نیچے
ریستوران کے مالک کی ہنس مُکھ بیوی کے
نرم گلابی پاؤں بھی
گیت کی ہمراہی میں تھرک رہے تھے!”
یہ منظر ہمیں ثقافتی یکجہتی اور مزاحمت کے حوالے سے بہت کچھ بتاتا ہے۔ یہاں "نرم گلابی پاؤں” ایک نرم و لطیف اور "جذبہ” کی نمائندگی کرتے ہیں جو کہ ان تناؤ کی حالت میں بھی پھیل رہا ہے۔ یہاں موسیقی اور محبت ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور ان کے ذریعے سیاست و ثقافت میں ایک قدرتی ربط پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک پیچیدہ اور دلچسپ بین المتنی حوالہ ہے جہاں ہمیں سامراجی حکمت عملیوں کے باوجود ہم آہنگی اور محبت کی جستجو کی طرف اشارہ ملتا ہے۔
*نتیجہ*
اس نظم کا بین المتنی تجزیہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس نظم میں اپنے کلام میں سیاسی، ثقافتی، اور تاریخی حوالوں کو نہایت خوبصورتی سے جوڑا ہے۔ اس میں عالمی اور مقامی سطح پر موجود ثقافتی، قومی اور تاریخی تصورات کو مابعد نوآبادیاتی تنقید اور نیشنلسٹ جذبات کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔یہاں موسیقی، سیاست اور جذبات کا امتزاج ایک پیچیدہ بین المتنی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا ہے جو سامراجی اثرات، ثقافتی یادیں اور قومی شناخت کے سوالات پر غور کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
یہ نظم نہ صرف ایک خوبصورت ادب کا نمونہ ہے بلکہ اس میں موجود بین المتنی تعلقات ہمیں عالمی و مقامی تاریخ اور ثقافت کی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔
آصف علی آصف