غزل
پر کو کیوں تول رہا ہے نئے انداز کے ساتھ
کب قفس لے کے اڑا ہے کوئی پرواز کے ساتھ
صرف لہجہ ہی ترازو نہیں ہوتا دل میں
حرف و معنیٰ بھی سفر کرتے ہیں آواز کے ساتھ
منزلِ شوق پہ حق بھی اسی انسان کا ہے
سامنے جس کے ہو انجام بھی آغاز کے ساتھ
اس قدر تیز ہوا تھی کہ بکھر ہی جاتا
وہ تو وحشت نے سنبھالا ہے مجھے ناز کے ساتھ
مدتوں سے نہیں تحریکِ غزل کیا کہیے
بجھ گیا شعلہِ دل شعلہِ آواز کے ساتھ
ساجد رضوی