Palty Kahan jo wadee a ibhaam Tak Gayee
غزل
پلٹے کہاں جو وادئ ابہام تک گئے
کاذب طریق مجمعء کہرام تک گئے
ہر اک تھکن کو اوڑھ کے خاکی وجود پر
ہم زندگی کو کھوجنے انجام تک گئے
ہم پر نزولِ حرف کے بادل برس پڑے
لفظوں کو جب بھی ڈھونڈنے الہام تک گئے
دعویٰ تھا جن کا شہر میں کہ پارسا ہیں ہم
ان کے قدم بھی کوچہءِ دشنام تک گئے
اپنا نشان کھوجنے خود کی تلاش میں
خوشبومیں خودکو ڈھال کے گلفام تک گئے
قائل کروں میں کس طرح اس بدگمان کو
جب کہ سفیر حجت اتمام تک گئے
تابشِ یہ اہل عقل کے ثمرات ہی تو ہیں
جاہل جنوں میں حربۂ ہنگام تک گئے
شہزاد تابشِ
Shahzad Tabish