پلکوں سے اب کے ابر جو کھل کر برس گیا
فرطِ وفا سے دل کا ہر اک تار کس گیا
اُمید کے چراغ کی لَو خود ہی بجھ گئی
دل کو جو کچھ سکون تھا‘ اب کے برس‘ گیا
کس نے متاعِ رونق بازار چھین لی
یہ روشنی کا شہر کوئی کیسے ڈَس گیا
جس سے وفا کی کوئی توقع نہ تھی مجھے
کتنے خلوص سے وہ مرے دل میں بس گیا
جو کونپلیں بھی شاخ پہ پھوٹیں وہ جل گئیں
جو پھول بھی کھلا وہ نمی کو ترس گیا
میں نے تو کوئی دُکھ اسے اب تک نہیں دیا
کیوں اس کے لب سے پیار کے لہجے کا رَس گیا
دیکھی نہ انبساط کی چھاؤں تمام عمر
احمد غموں کی دُھوپ میں چہرہ جھلس گیا
سید آلِ احمد