پڑھنے کو بہت کچھ ہے کتابوں کے علاوہ
کچھ اور پڑھویار نصابوں کے علاوہ
کیا اور بھی کچھ لوگ یہاں جان سے گزرے
ہم عشق زدہ خانہ خرابوں کے علاوہ
ہر روز یہاں روزِ قیامت ہے زمیں پر
اب یاد نہیں کچھ بھی عذابوں کے علاوہ
سنتے ہیں کوئی جوگی یہاں آیا ہواہے
تعبیر بتاتا ہے جو خوابوں کے علاوہ
جو ناز کو پڑھتے ہیں وہ پھولوں کی دکاں سے
کچھ اور نہیں لیتے گلابوں کے علاوہ
ناز مظفرآبادی