غزل
پھر آئی فصل گل پھر زخم دل رہ رہ کے پکتے ہیں
مگر داغ جگر پر صورت لالہ لہکتے ہیں
نصیحت ہے عبث ناصح بیاں ناحق ہی بکتے ہیں
جو بہکے دخت رز سے ہیں وہ کب ان سے بہکتے ہیں
کوئی جا کر کہو یہ آخری پیغام اس بت سے
ارے آ جا ابھی دم تن میں باقی ہے سسکتے ہیں
نہ بوسہ لینے دیتے ہیں نہ لگتے ہیں گلے میرے
ابھی کم عمر ہیں ہر بات پر مجھ سے جھجکتے ہیں
وہ غیروں کو ادا سے قتل جب بے باک کرتے ہیں
تو اس کی تیغ کو ہم آہ کس حیرت سے تکتے ہیں
اڑا لائے ہو یہ طرز سخن کس سے بتاؤ تو
دم تقدیر گویا باغ میں بلبل چہکتے ہیں
رساؔ کی ہے تلاش یار میں یہ دشت پیمائی
کہ مثل شیشہ میرے پاؤں کے چھالے جھلکتے ہیں
بہار تیندو ہریش چندر