پھر سے آ کے اترے ہیں سلسلے عذابوں کے
دل میں ہوں گے خیمہ زن قافلے عذابوں کے
کس لیے اٹھاتے ہو چونچلے عذابوں کے
اس طرح تو بڑھتے ہیں حوصلے عذابوں کے
ہر گھڑی اذیت ہے زندگی سے مرنے تک
ہم نے سہہ کے دیکھے ہیں مرحلے عذابوں کے
اک کڑی سے ملتی ہے دوسری کڑی جیسے
اس طرح سے ملتے ہیں سلسلے عذابوں کے
میں انا کا قائل ہوں تو انا کا قاتل ہے
کس طرح سے بانٹیں گے فاصلے عذابوں کے
دل کو تیری چاہت کے مرہموں کی حاجت ہے
ہو سکے تو کردے کم آبلے عذابوں کے
عظمی جون