غزل
پھولوں جیسا جسم ہے اس کا نازک نازک ہاتھ
دیکھ کے اس کو کیسے رہیں گے قابو میں جذبات
جس نے ہم کو چھوڑ دیا تھا تنہا کرکے دوست
وقت ملا تو ہم بھی اس سے پوچھیں گے حالات
ایسا نئیں ہے اس کا مجھ پر رعب چلے ہر وقت
کاٹ بھی سکتا ہوں میں اس کی اچھی خاصی بات
اکثر ایسا ہوجاتا ہے ہم دونوں کے بیچ
میں قرطاس پہ رکھ دیتا ہوں آنکھیں اور وہ ہاتھ
دشمن بھی وہ دوست بنے ہیں میرے دوست ندیم
جس دن نکلوں گا میں گھر سے لگ جائے گی گھات
ندیم ملک