پھولوں کو، سبزہ زار کو رسوا کیا گیا
رنگینئ بہار کو رسوا کیا گیا
تھے سبز موسموں کی طلب میں سبھی شجر
کیوں ان کے انتظار کو رُسوا کیا گیا
الفت کے پُر فریب حوالوں کے با وجود
وعدوں کے اعتبار کو رُسوا کیا گیا
کچھ اسطرح کیا گیا سازش کا اہتمام
جذبات کے وقار کو رُسوا کیا گیا
اس محفلِ نشاط کے آداب اور تھے
واں قلبِ بے قرار کو رُسوا کیا گیا
جو بھی مرے گدازِ الم کا شریک تھا
ہر اہک غم گُسار کو رُسوا کیا گیا
نا قدرئ زمانہ کا اس دم پتہ چلا
جب لُطفِ چشمِ یار کو رُسوا کیا گیا
حد درجہ بے حجاب ہوئی راستے کی دھوپ
جب شجرِ سایہ دار کو رُسوا کیا گیا
اے نور مجھ کو تھا جو کبھی تیری ذات پر
اس ناز و اختیار کو رُسوا کیا گیا
نورِ شمع نور