پھولوں کی طرح خوب نہ کانٹوں کی طرح ہیں
گلشن میں چمکتے ہوئے غنچوں کی طرح ہیں
مت چھیڑ ہمیں ایسے کہ شعلوں کو ہوا دیں
جو پیار سے دیکھیں گے گلابوں کی طرح ہیں
راتوں کو اگر نیند کے درپن میں سجا لیں
آنکھوں میں شبِ وصل کے خوابوں کی طرح ہیں
پیمانے یہاں جام کے آنکھوں سے چھلکتے
بھر پور نشہ جن میں شرابوں کی طرح ہیں
تو اپنے سوالوں کے پُلندے کو ادھر کھول
ہم دل کی عدالت میں جوابوں کی طرح ہیں
مبہم کبھی رکھتے نہیں ہم دل کے دریچے
دنیا کی نگاہوں میں کتابوں کی طرح ہیں
جگنو کی طرح کیسے ہمیں قید کرو گے
راتوں کو بھی تابش ہیں اجالوں کی طرح ہیں
تابش رامپوری