پہلا سا لطف شامِ چراغاں نہیں رہا
کیا اب میری تلاش میں طوفاں نہیں رہا
ہم حد اختیار سے اگے نکل گئے
اپ واپسی کا کوئی بھی امکاں نہی رہا
مجھ سے بچھڑ کے یہ بھی اذیت کی بات ہے
تو بھی بھری بہار میں شاداں نہیں رہا
ائے رحمتِ تمام میں نادم ہوں مانگ کر
مجھ کو خیالِ تنگئی داماں نہیں رہا
میں خود بھی اپنے ظرف پہ حیران ہوں فنا
کانٹوں کے درمیاں بھی پریشاں نہیں رہا
فنا شموگا