غزل
پہنچ کے ہم سر منزل جنہیں بھلا نہ سکے
وہ ہم سفر تھے جو کچھ دور ساتھ آ نہ سکے
تمام عمر پشیمانیوں میں بیت گئی
بقدر شوق محبت کے ناز اٹھا نہ سکے
مجھے خیال ہے ان دل گرفتہ کلیوں کا
جنہیں نسیم سحر چھیڑ دے کھلا نہ سکے
کچھ ایسے درد بھی ہیں زندگی کی راہوں میں
جہاں حجاب تبسم بھی کام آ نہ سکے
کرم کی آس کے سایوں میں بجھ گیا وہ چراغ
ہوائے یاس کے جھونکے جسے بجھا نہ سکے
اندھیری شب تھی ستاروں سے کیا سکوں ملتا
ستارے بھی تو بہت دیر جگمگا نہ سکے
غزل کے حسن کا احساس اس کو کیا جاویدؔ
خلوص نرمئ گفتار کو جو پا نہ سکے
فرید جاوید