پیچ در پیچ سوالات میں الجھے ہوئے ہیں
ہم عجب صورت حالات میں الجھے ہوئے ہیں
ختم ہونے کا نہیں معرکۂ عشق و ہوس
مسئلے سارے مفادات میں الجھے ہوئے ہیں
کس خسارے میں نظر ہے کہ سمٹ جاتی ہے
کچھ ابھی دائرۂ ذات میں الجھے ہوئے ہیں
ان میں تو مجھ سے زیادہ ہے پریشاں نظری
آئینے شہر کمالات میں الجھے ہوئے ہیں
اس پہ دعویٰ بھی کہ یہ کار مسیحائی ہے
سارے اذہان خرافات میں الجھے ہوئے ہیں
کرۂ خاک پہ پڑتے ہی نہیں ان کے قدم
دیدہ ور سیر طلسمات میں الجھے ہوئے ہیں
نور مطلق کی ہے تشبیہ نہ تمثیل مگر
ہم اشارات و کنایات میں الجھے ہوئے ہیں
سید امین اشرف