غزل
چاروں طرف کچھ دیواریں سی رہتی ہیں آہوں میں لگی
میری مٹی تیرے گھر کی گہری بنیادوں میں لگی
چپ کی چادر اوڑھ تو لی ہے پاؤں چھپیں سر کھل چائے
محرومی کی دھوپ نہ جانے کب سے آوازوں میں لگی
ان سے ظلمت دشت مقدر اور سیاہ نہ ہو جائے
چھوڑ نہ دیتا چاند کرنیں تم اپنے خوابوں میں لگی
مجھ سے میرے اپنے لوگ بھی رہتے ہیں بیگانے سے
میرے نام کی کون سی تہمت ان کے اندازوں میں لگی
اس موسم میں ڈالی ڈالی برف کے اتنے پھول کھلے
رنگ و تپش سے محرومی کی شاخ مرے جذبوں میں لگی
عابد جعفری