چاندنی کی رات ہو یا دھند میں لپٹی سحر
بس اسی کو سوچنا ، ہاں سوچنا اچھا لگا
پھر کسی کی یاد میں خوشبو کی چادراوڑھ لی
پھر کسی کے دھیان میں یوں جھومنا اچھا لگا
رات ،آتش دان ، بارش ،اور بجتی کھڑکیاں
سنگ تیرے گرم کافی ، ،ذائقہ اچھا لگا
عمر بھر صحرا نوردی ہی رہی ذوقِ سفر
عشق میں ہر زخم ہر اک آبلہ اچھا لگا
جھومتی گاتی ہوئی لہروں کے بیچوں بیچ میں
ریت پر یوں ننگے پاؤں گھومنا اچھا لگا
چوڑی ،کنگن ،بالیاں ،گجرے اسے اچھے لگے
مجھ کو اس کا غور سے یوں دیکھنا اچھا لگا
پھر وہی پروا ترنم اور ساون کی پھوار
کچے گھر کے آنگنوں میں جھولنا اچھا لگا
ترنم شبیر