چاہت مری چاہت ہی نہیں آپ کے نزدیک
کچھ میری حقیقت ہی نہیں آپ کے نزدیک
۔
کچھ قدر تو کرتے مرے اظہار وفا کی
شاید یہ محبت ہی نہیں آپ کے نزدیک
۔
یوں غیر سے بے باک اشارے سر محفل
کیا یہ مری ذلت ہی نہیں آپ کے نزدیک
۔
عشاق پہ کچھ حد بھی مقرر ہے ستم کی
یا اس کی نہایت ہی نہیں آپ کے نزدیک
۔
اگلی سی نہ راتیں ہیں نہ گھاتیں ہیں نہ باتیں
کیا اب میں وہ حسرتؔ ہی نہیں آپ کے نزدیک
حسرت موہانی