غزل
چاہے مانو برا ہم نہیں مانتے
پتھروں کو خدا ہم نہیں مانتے
جس کے ہونے نہ ہونے کی تصدیق ہو
اس خدا کو خدا ہم نہیں مانتے
مانتے ہیں اسے جو دکھائی نہ دے
اور کوئی خدا ہم نہیں مانتے
چاہے کتنا ہی مشکل ہو جینا اسے
زندگی کو سزا ہم نہیں مانتے
اپنے اعمال کی بھی ہے کچھ تو خطا
سب ہے رب کی رضا ہم نہیں مانتے
ہم کو خود بھی نہیں کچھ پتا دوستو
مانتے بھی ہیں یا ہم نہیں مانتے
مانتے ہیں بری عادتوں کا برا
غلطیوں کا برا ہم نہیں مانتے
ہم سمجھتے ہیں سر پر چڑھانا برا
پیار کا تو برا ہم نہیں مانتے
مے کے پینے سے کتنی بھی راحت ملے
مے کا پینا بجا ہم نہیں مانتے
دوش دے سکتے ہیں اپنی تقدیر کو
یار کو بے وفا ہم نہیں مانتے
مان سکتے ہیں ہم اس کو اک خوف ہی
کچھ ہے رب سے بڑا ہم نہیں مانتے
کیوں یہی کچھ ہی پروازؔ اکثر کہو
میں نہیں مانتا ہم نہیں مانتے
درشن دیال پرواز