غزل
چراغ آنکھ کی سب بولیاں سمجھتے ہیں
یہ ہم سے پوچھ جو ایسی زباں سمجھتے ہیں
بہا کے لے گیا سب خد و خال عہد شباب
ہم آئینے کو بھی آب رواں سمجھتے ہیں
ہمیں ازل سے محبت سکھائی جاتی ہے
ہم اہل حرف یہی اک زباں سمجھتے ہیں
جہاں یقیں کے تجسس کی آنکھ بند نہ ہو
اسے علاقۂ وہم و گماں سمجھتے ہیں
اٹھا چکا ہے تکلم تمام پردے مگر
ہم ان کہی کو ابھی درمیاں سمجھتے ہیں
تباہ کی گئی دنیاؤں کا غبار نہ ہو
ہم اہل خاک جسے کہکشاں سمجھتے ہیں
ہمارا بوجھ کسی اور نے اٹھایا نہیں
تو ہم بھی کیا اسے بار گراں سمجھتے ہیں
رحمان حفیظ