غزل
چرچا اس عالمین میں جس کی ادا کا تھا
آئینہ میرے پاس اسی مہ لقا کا تھا
جس کے ہزار جان فدائی ہیں دہر میں
چہرہ نگاہ میں اسی گلگوں قبا کا تھا
جھکتا نہ کیسے سامنےاس کا سرِ غرور
جب مسلۂ نگاہ میں میری انا کا تھا
آتا نہ کیسے لوٹ کے پھر میرے پاس وہ
ہر حرفِ معتبر بھی تو میری دعا کا تھا
مجھ کو بچایا رحمتِ پروردگار نے
پہرہ جہاں میں لاکھ وبا و بلا کا تھا
بازو کٹا کے جامِ اجل نوش یوں کیا
فرش و فلک پہ چرچا اسی کی وفا کا تھا
مجھ سے بھی آشنا تھی جو یہ ساری کائینات
ساراکرم کیا ہوامیرے خدا کا تھا
مجھ سے منوّر اس لیۓ نادم ہوا تھا وہ
ان کی نظر میں چہرہ بھی روزِ جزا کا تھا
منور جہاں زیدی