غزل
چلا رہی ہیں جس پہ زبانیں لہو لگی
یہ وہ صدا تھی جو مجھے بار گلو لگی
کیا کیا نہ مس کیا تجھے میں نے فراق میں
لیکن تری کمی جو ترے روبرو لگی
میں تب قرار دوں گا تجھے اپنا ہم سخن
جب میری خامشی بھی تجھے گفتگو لگی
اب گھر کے رہ گیا ہوں عجب ازدحام میں
ہر آرزو کی پشت سے ہے آرزو لگی
اے حسرت کمال کچھ اپنا خیال کر
مر ہی نہ جائے یوں مرے سینے سے تو لگی
بدنام ہو گئے ہیں جسے لکھ کے آج ہم
کل دیکھئے گا فلم یہی کو بہ کو لگی
برداشت کا عذاب مری خامشی سے پوچھ
توپیں صداؤں کی ہیں مرے چار سو لگی
رحمان حفیظ