چلو تم کو ملاتا ہوں میں اس مہمان سے پہلے
جو میرے جسم میں رہتا ہے میری جان سے پہلے
کوئی خاموش ہوجائے تو اس کی خامشی سے ڈر
سمندر چپ ہی رہتا ہے کسی طوفان سے پہلے
مجھے جی بھر کے اپنی موت کو تو دیکھ لینے دو
نکل جائے نہ میری جاں مرے ارمان سے پہلے
مری آنکھوں میں آبی موتیوں کا سلسلہ دیکھو
کہ سو تسبیح کرتا ہوں میں اک مسکان سے پہلے
پرانا یار ہوں دوشی مرا یہ فرض بنتا ہے
تجھے ہشیار کردوں میں ترے نقصان سے پہلے
رانا سعید دوشی