چلو کہ ایک خواب سے سخن کی ابتدا کریں
الم جو ہے لکھا کریں ، جو خوف ہے کہا کریں
یہ لوگ ہو گئے ہیں اب اذیتوں سے آشنا
بلا سے آسماں گرے کہ بجلیاں گرا کریں
بکھر گئے تو سوچ لو یہ وقت پھر نہ آئے گا
یہ فیصلے کی ہے گھڑی سو مل کے فیصلہ کریں
کیوں رذم گاہِ شوق میں سکوت ہی سکوت ہے
جو شور ہے اٹھا کرے ، جو تیر ہیں چلا کریں
یہ جگنووں کی رونقیں تو ایک پل کا کھیل ہے
ملا ہے حکم ہر طرف حویلیاں سجا کریں
قلم کی نوک پر فقط ہیں رنجشیں ہی رنجشیں
تو پھر عزیز ساتھیو محبتوں کا کیا کریں
یہ عمر کے ہیں تجربے ، یہ پل کے فیصلے نہیں
ہوا کا رخ جدھر کا ہے اسی طرف چلا کریں
سہیل ثاقب