غزل
چل کہیں دور زمانے سے ادھر ملتے ہیں
جسم کے آئنہ خانے سے ادھر ملتے ہیں
خلد آثار ہے گویا یہ ترا شہر خیال
کیسے رنگین فسانے سے ادھر ملتے ہیں
دل دفینے کو کبھی کھوج نوادر کتنے
وقت کی گرد ہٹانے سے ادھر ملتے ہیں
یک بیک دھندلے ہوئے جاتے ہیں سارے منظر
اور پھر تیر نشانے سے ادھر ملتے ہیں
اک جزیرہ ہے کہ کھوئے ہوئے حیرت زدگاں
صرف آواز لگانے سے ادھر ملتے ہیں
بشریٰ مسعود