چمن چمن کے دشمنوں کی نذر ہو کے رہ گیا
میرا وطن تو سازشوں کی نذر ہو کے رہ گیا
خوشا کمالِ رہبراں زہے کمالِ رہبری
یہ کارواں تو رہزنوں کی نذر ہو کے رہ گیا
درون آستیں جو سانپ تھے وہ کام کر گئے
میرا خلوص دشمنوں کی نذر ہو کے رہ گیا
کبھی نظر کلی کلی کی آنچ سے پگھل گئی
کبھی شعور میکدوں کی نذر ہو کے رہ گیا
وہ شہر دل جس میں آپ مدتوں بسا کیے
وہ شہر دل تو حسرتوں کی نذر ہو کے رہ گیا
اب آ رہی ہے سر پہ رات تیرگی لیے ہوۓ
یہ دن تو خیر کاوشوں کی نذر ہو کے رہ گیا
کبھی گلوں کے شعلہ ہائے سرد جل کے راکھ ہوگئے
دلوں کا سوزِ غم گلوں کی نذر ہو کے رہ گیا
خالد علیگ