چمکتے اشکوں کی تسبیح لے کے ہاتھوں میں
میں تجھ کو ڈھونڈتا پھرتا ہوں طاق راتوں میں
وہ ہنس رہا تھا مگر سُن کے رو پڑا میں تو
بڑی شدید اُداسی تھی اُس کی باتوں میں
کچھ اِس لیے بھی ہے میری غزل میں سُرخی سی
میں بھرتا رہتا ہوں اپنا لہو دواتوں میں
چلو یہ مانا تری جیت ہے عظیم مگر
ہماری مات بھی ہے یادگار ماتوں میں
پُکارتی ہیں مجھے وہ صدائیں بھی فارس
چُھپی ہوئی ہیں جو نادیدہ کائناتوں میں
رحمان فارس