چوروں کے ہاتھ میں ہے وطن جاگتے رہو
مشکل میں پڑ چکا ہے چمن جاگتے رہو
بتلاو اہلِ فکر کو اب رہبری کریں
منزل ہوئی ہے اپنی کٹھن جاگتے رہو
خنجر بناو انگلیاں سچ بولو برملا
کھینچے نہ کوئی آکے دہن جاگتے رہو
جھونکے ہوا کے روٹھ گئے جانے کس لیے
بڑھتی ہی جا رہی ہے گھٹن جاگتے ہو
ہم چھپ چھپا کے زندگی کیسے گزار لیں
جیسا بھی ہو ہوا کا چلن جاگتے رہو
منزل پہ پاوں دھرنے کا ہے منفرد مزہ
اترے گی پھر ہی جا کے تھکن جاگتے رہو
قیمت چکانی پڑتی ہے راہِ صراط کی
سچ کا نتیجہ گور و کفن جاگتے رہو
ماجد یہ گہری نیند تو ہنگامہ خیز ہے
کہتا ہے میرا طرزِ سخن جاگتے رہو
ماجد جہانگیر مرزا