loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

17/06/2025 15:24

چہرے سے وہ نقاب جو سرکا کے رہ گئے

چہرے سے وہ نقاب جو سرکا کے رہ گئے
ارمان میری چشم تمنا کے رہ گئے

میخانہ امید میں ہم جاکے رہ گئے
ساقی نے ڈالی آنکھ تو غش کھا کے رہ گئے

لائے نہ تاب دید تو غش کھا کے رہ گئے
دعوے تمام حضرت موسیٰ کے رہ گئے

ہم اپنی سخت جانی سے جھنجھلا کے رہ گئے
گردن جھکائی کٹ گئے شرما کے رہ گئے

آنکھیں ملائیں کیا کہ پلائے ہیں خم کے خم
احسان ہم پہ ساغر و صہبا کے رہ گئے

کہنے دیا نہ حشر میں کچھ رب حسن نے
شکوے مری زبان پہ آ آ کے رہ گئے

طولانیاں فراق کی بڑھتی رہیں یونہی
پھندوں میں آکے زلف چلیپا کے رہ گئے

وہ بے خودی میں لےگئے جاں تک نکال کر
ہم محو دید عارض زیبا کے رہ گئے

وہ ناز آفریں جو تصور میں آگیا
ہم دونوں ہاتھ شوق میں پھیلا کے رہ گئے

اس بے خبر کی آکے کسی نے خبر نہ دی
نالے اگر کئے تو وہیں جا کے رہ گئے

مشق ستم کے واسطے باقی ہے دم ابھی
یہ کیا ستم کیا کہ ستم ڈھا کے رہ گئے

ٹھنڈا تو کرسکے نہ کلیجے کی آگ کو
تیروں کا مینہ وہ سینے پہ برسا کے رہ گئے

یہ تھے میرے نصیب کہ میخانہ کھل گیا
اغیار منتظر در توبہ کے رہ گئے

لایا نہ ایک کو بھی میں اپنے خیال میں
جلوے مری نظر میں بہت آکے رہ گئے

بس اور کیا کہوں کہ خدا آگیا نظر
وہ برق حسن دل پہ جو لہرا کے رہ گئے

قاتلؔ کی انتظار میں گزری تمام عمر
ارمان خون ہو کے تمنا کے رہ گئے

قاتل اجمیری

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم